Thursday, April 22, 2021



استاد کسی بھی معاشرے کا وہ کردار ہیں جن کے کندھوں پر اچھے یا برے معاشرے کی تشکیل کا بوجھ ہوتا ہے۔ان معمار قوم کے ہاتھ باندھ دینے کا مطلب ہے ایسی نسل کو پروان چڑھانا جو منہ زور ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی پستیوں میں گری ہوئی ہو۔اچھے استاد کا ملنا بہت خوش نصیبی کی بات ہے۔پہلے والدین اپنے بچوں کی شخصیت سنوارنے کے لئے اساتذہ کے حوالے کرتے تھے لیکن آج اساتذہ کو والدین کے تابع رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے

"مار نہیں پیار"کا نعرہ ایک حدد تک تو اثر رکھتا ہے لیکن دراصل اس کے اثرات بہت بھیانک ہیں

یہ نعرہ دراصل چند اساتذہ کے بےجا تشدد کو روکنے کے لیے لگایا گیا۔جن کی مار کی وجہ سے بچے یا تو تعلیم کے نام سے بھی دوڑ جاتے ہیں یا وہ ایسے تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے لیے کسی گہری چوٹ کا باعث بنتا تھا۔ لیکن اس کی آڑ میں بارسوخ ذرائع رکھنے والے لوگوں نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور اساتذہ کے احترام کو پامال کرنا شروع کر دیا 

آج اساتذہ بااثر افراد کے تابع رہنے اور ان کے آگے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں المیہ تو یہ ہے کہ استاد سے چھوٹی سی غلطی سرزد ہونے کی صورت میں اس کی پیشی انہی والدین کے سامنے ہوتی ہے

اس نعرے کا ماخذ دراصل پرائیویٹ سکولوں کے قوانین و ضوابط ہیں جو فیسوں سے اپنی جیبوں کو بھرنے کی خاطر کسی بچے کا سکول سے اخراج برداشت نہیں کر پاتے انہیں ہر حالت میں بچے کی تعداد کو پورا کرنا ہے اس تعداد کو پورا کرنے کی خاطر انہیں چند اچھے اساتذہ سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تو کوئی فرق نہیں پڑتا 

پی ٹی ایم کے نام پر والدین کی آؤ بھگت اور خوشامد سے والدین کو خوش کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ رہیس زادے اور رہیس زادیوں کو راہ راست پر لانے اور ان کی اصلاح کرنے کے لیے اساتذہ کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ توجہ سے پڑھائیں اور ین کی اصلاح کریں۔ٍمار نہیں پیار کی اصل جڑ یہیں سے پروان چڑھی ہے۔جو بعد میں ہر سکول تک پہنچ گئی ہے

اساتذہ کو اس بات کا خود دھیان رکھنا چاہئیے کہ والدین اپنے جگرگوشوں کو برے اعتماد سے استاد جیسی ہستی کے حوالے کرتے ہیں۔ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی شخصیت سازی میں حتی الامکان کوشش پیار سے کریں لیکن بگاڑ نظر آنے پر اپنے مار کے اختیارات کا استعمال کریں۔جو سزا کا حق دار ہے اسے سزا ملنی چاہیےلیکن سزا اذیئت نہیں بننی چاہیے۔

Tuesday, April 20, 2021

میڈیا کی بےلگام آزادی


 ایک محب وطن شہری ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان امور کی نشاندہی کریں جو میرے وطن کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔میڈیا کسی بھی معاشرے میں اچھائی یا برائی پھیلانے میں بڑا اثر رکھتا ہے۔ہمارے ٹی وٰی چینلز پر دکھائی جانے والی نشریات میں جو پروگرام دکھائے جا راتہے ہیں وہ کسی طرح بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔چند روپوں اور پروگراموں کی ریٹنگ کی خاطر وطن کے بیٹے اور بیٹیوں کو نچایا جا رھا ھےاور جو دنیا کے سامنے پاکستان کا غلط نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ھمارے چینلز کی نشریات میں ناچتے نوجوان ہمارے ملک کے سارے طبقوں کی نمائندگی نہیں کرتےلیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پروگرام ہر طبقے پر اثرانداز  ہو رہے ہیں۔کہیں اسٹیج پر دلہن بنی جوان لڑکیاں  مقابلہ کرتی نظر آتی ھیں تو کسی جگہ  جلوے بکھیرتی ادائیں دکھاتی ماڈلز سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ھیں۔کسی جگہ گانوں اور ڈانس کا مقابلہ ھے تو کسی جگہ ٹک ٹاکر ھیرو بنے ہوے ہیں ۔گھروں میں بیٹھے نوجوان ان کو ہی اپنا آئیڈیل بنا کر وہی سب سیکھیں گے جو دکھایا جا رہا ھے۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں چینلز کو یہ سب زیب نہیں دیتا کہ وو ایسی کسی تہزیب کا پرچار کرے۔آزادی کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں آزادی تو نظر آتی ھے اسلام نہیں۔ خدا ھمیں نیکی کی ہدائیت دے آمین

As a patriotic citizen, it is our duty to take stock of the situation in the country and point out the issues that are licking my homeland like termites. The media has a great influence in spreading good or evil in any society. The programs being shown on TV channels do not reflect our society in any way. For the sake of a few rupees and ratings of programs, the sons and daughters of the homeland are being danced and what is Pakistan's in front of the world. The wrong map is being drawn. The young people dancing in the broadcasts of our channels do not represent all sections of our country but the bitter reality is that such programs are affecting every section. So, in some places, models try to take the lead. In some places, there is a competition of songs and dances, and in some places, they have become tick-tock heroes. It is being shown. In a country established in the name of Islam, it does not beautify the channels that Wu He should propagate such a civilization. In this country which was achieved in the name of freedom, freedom is seen and not Islam. May God guide us to goodness. Ameen

DRUG ADDICTION

  کسی بھی بیماری کے لیے ہم ادویات کا استعمال کرتے ہیں یہ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو کسی کی جسمانی یا نفسیاتی تبدیلے کا باعث بنتے ہیں۔دہکھنے می...