Thursday, August 19, 2021

یوم دفاع اور2021

 



آج سے کچھ دن بعد ہمم بڑے جوش وخروش سے اپنا یوم دفاع منانے والے ہیں۔اپنی کامیابی کا جشن منانا ہمارا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دشمن اپنی دھیمی چال اور چالاکی سے 1971میں ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنا بدلہ لے چکا ہے بدلتے دور نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ علم  اور عقل  سے لڑی جاتی ہیں  اور اج جنگ کی ہار اور جیت  کا انحصار اس ملک کے نوجوانوں پر ہے کیونکہ
نوجوان کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کسی ملک کے مستقبل کا تعین اس ملک کے نوجوانوں کی عادات و اطوار کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے نوجوان جو معاشرے کا ستون ہوتے ہیں اگر غلط کاریوں کا شکار ہو جائیں تو ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے اگر کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے اسی طرح اگر ملک کو مکمل طور پر تباہ کرنا مقصود ہو تو اس ملک کے نوجوانوں کو غلط کاریوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور اس ملک کو غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کچھ ایسا ہی حال آج میرے وطن عزیز کا ہے جس میں نوجوانوں کی تفریحات کا جائزہ لیں
تو سوائے تباہی کے کچھ نظر نہیں آتا
پہلے وقتوں میں تفریحی پروگرام دیکھے جانے کا وقت مقرر تھا جو آج اتنا بڑھ چکا








ہے کہ نوجوانوں کی زندگی میں صرف تفریح ہی نظر آتی ہے قیامت کا سماں نظر آتا جب کسی نوجوان کو اس کی تفریح سے روک دیا جائے سب تفریحات میں
ایسی تفریح ہے جو بیہودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہےTIKTOK بے لگام نوجوانوں کے لیے یہ ایک ایسا راستہ ہے جو انھیں اپنے کمروں سے لے کر پارکوں تک ہر طرح کی سہولت مہیا کرتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں بیہودگی پھیلاہیں
سستی شہرت کے حصول کے لیے نوجوان خود کو بے لباس کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے کلچر کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں ہر دوسرے گھر سے نہ صرف نوجوان لڑکے بلکہ نوجوان لڑکیاں فلمی اداکاراؤں کی نقالی کرتی نظر آتی ہیں نوجوانوں کے علاؤہ اڈھیڑ عمر ،بچے اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہیں پھر بد قسمتی تو یہ ہے کہ ان کو بطورِ ہیرو ٹی وی کے چینلز پر بلا کر سراہا جاتا ہے

ایسے معاشرے میں مینار پاکستان جیسے واقعات کا ہونا معمولی بات ہے ایسے ۔شرمناک واقعات بے جا آزادی کا منہ بولتا ثبوت ھیں
معاشی ترقی کے ذرائع ڈھونڈنے والے نوجوان سے پھر ایسی ہی تفریح کی امید کی
جا سکتی ھے۔وہ خود کو اخلاق سے گرا کر یا خود کو نچا کر پیسہ کمانے کے لیے
تیار ھو جاتے ھیں۔نوجوانون کو سوشل میڈیا تو ایک راستہ مل ھی گیا ہوا ھےایسی
حرکات کے لیے

سرحدوں پر جان ہتھیلیوں پر رکھے جانباز تو آج بھی میلی آنکھ وطن کی طرف اٹھنے نہیں دیں گے لیکن کیا دفاع صرف سرحدوں تک ہی ضروری ہےبدلتے دور میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نھیں لڑی جاتیں بلکہ علم اور ہنر سے لڑی جاتی ہیں۔سرحدوں پر دفاع کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی دفاع بہت ضروری ہے۔ھمارے نوجوانوں میں خود نمائی کی ہوس اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں

بند اگر کمزور ہو تو پانی سیلاب بن کر نقصان ضرور کرتا ہےفحاشی کا پھیلتا ہوا سیلاب اس ملک کے نوجوانوں کو بہاتا لے جا رہا ہے۔معاشرے میں فحاشی جتنی خاص ہوتی جائے گی برئی اتنی عام ہوتی جائے گی
اس کا ذمہ دار کون ہے؟ والدین ، حکمران ،اساتذہ یا ہمارا میڈیا ؟۔ایسا معاشرہ جس میں میرا جسم میری مرضی جیسے گندے نعرے کے خلاف آواز بلند کرنے والی قوم کبھی بھی اپنے معاشرے کو بگڑتا نہیں دیکھ سکتی۔افسوس ہے حکمرانون پر جو جنہوں نے محض کبوتر کی ترح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ہمارے ذمہ دار
افراد کدھر ھیں؟کون ان کی لگامیں کھینچے گا؟کون ان کو راہ راست پر لائے گا؟
اگر برائی کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو پھر ملک کا مستقبل کیا
ھو گا؟والدین خود بھی ذمہ دار ہیں۔وہ اپنی اولادوں کو روکنے میں یا تو بے بس
ھیں یا پھر خود ان سب سے متاثر ہیں۔اگر اس بہتے ہوئے دریا کے آگے بند نہ
باندھا گیا تو پھر بے حیائی کے سیلاب سے ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دارہوں گے

اللہ میرے ملک کو اس تباہی سے بچائے آمین!






Friday, August 13, 2021

14 AUGUST



 

کھلے آسمان تلے پر سکون فضا میں آزادانہ نقل و حرکت ایک آزاد ملک کے باشندے کی ہی خوش قسمتی ہو سکتی ھے۔ہمارا شمار بھی انہی خوش قسمت  لوگوں میں ھوتا ھے جو اپنا یوم آزادی بھرپور طریقے سے منا سکتے ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی جگہ جگہ پرچم لہرائے جایئں گے۔پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کئے جائیں گے۔اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں دی ھیں ان کا حساب چکانا ناممکن ہے۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کے قیام کی خوشی میں لاکھوں  مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔دنیا میں اتنی بڑی ہجرت کا واقعہ کہیں رونما نھیں ہوا تھا۔دشمن نے اس نومولود ملک کو اپاہج کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا تا کہ دوبارہ انڈیا کا حصہ بنایا جا سکے۔قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے باعث کے باعث دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن ایسے بیج بو گیا جو آج تک موجود ھیں۔جن میں سب سے بڑا مسلہ کشمیر کا مسلہ ھے۔جو برطانوی قانون دان سر ریڈ کلف نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ میں آ کر علاقوں کی  غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے آج تک حل نہیں ہو سکا 

            دشمن نے چالیں چلنےاورھماری آزادی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اللہ کے کرم اور ہمارے جانباز مجاہدوں کی بدولت ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔دشمن جب بھی کامیاب ہوا اس میں اپنوں کی غداری،ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس اہم پہلو رہے ہیں۔بد قسمتی سے با صلاحیت اور مخلص قیادت کا فقدان رہا ہے۔ اور اگر کوی ایسا شخص قیادت سنبھال لے تو اس کی آ نکھوں پر لالچ اور ہوس کی پٹی باندھ دی جاتی ہے وہ لالچ میں آ کر ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے یا دوسری صورت میں اس کو راستے سے ہی ہٹا دیا جاتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ یہ حکمران ملکی آزادی عظمت و حرمت کو گروی رکھ کر دنیا کے آ گے ہاتھ پھیلاتے اور اقتدار کے لیے لڑتے نظر آ تے ہیں



مخلص قیادت  قوموں کو بنانے اور سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس کی زندہ مثال چین میں ماؤزے تنگ کی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان اچھی قیادت سے اکثر محروم ہی رہا ہے۔کافی عرصہ آمرانہ دور کی وجہ سے جمہوریت کو فروغ ھی نہیں مل سکا اور جو دور جمہوریت کا آیا وہ مطلبی لوگوں کی نظر ھو گیا۔آج تک بھی دھاندلی چوری کے الزامات کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ہر صاحب حیثیت حزب مخالف کو چور اور نا اہل کہتا ھے۔انتخابات کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے اثاثہ جات کی ترقی کے لیے مکمل تگ و دو کی جاتی ہے۔عوام کو تصویر کا ایک رخ دکھا کر ان کی معصومیت کا اس طرح مذاق اڑایا جاتا ھےکہ وہ اپنی ساده لوحی کی وجہ سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھ ھی نہیں پاتے اور اپنے ملک پر مر مٹنے والے غیور عوام اپنی ہی حق رائے دہی سے اپنے ملک کے دشمنوں کو چن لیتے ہیں۔

ملک کی آزادی بہت بڑی نعمت ھے آزاد ریاستیں اپنے معاشی سیاسی،معاشرتی،اقتصادی نیز ہر پہلو میں آزاد ہوتی ھیں۔آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں  کی پہچان ہے لیکن اس جشن میں اپنے پرچم کی توہین کرنا دنیا کو منفی پیغام دینے کے مترادف ھے۔۔ہم اکثر جشن منانے کے جوش میں اپنے پرچم اپنے
پیروں تلے روند دیتے ہیں۔

ہم اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ یہ ھماری آزادی کی پہچان نہیں بلکہ ہماری پہچان ہی اس سے ہے۔ خدا ہمارےملک کو معاشی ،سیاسی،اقتصادی، معاشرتی خواہ ہر اعتبار سے ترقی عطا فرمائے آمین!






DRUG ADDICTION

  کسی بھی بیماری کے لیے ہم ادویات کا استعمال کرتے ہیں یہ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو کسی کی جسمانی یا نفسیاتی تبدیلے کا باعث بنتے ہیں۔دہکھنے می...