آج سے کچھ دن بعد ہمم بڑے جوش وخروش سے اپنا یوم دفاع منانے والے ہیں۔اپنی کامیابی کا جشن منانا ہمارا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دشمن اپنی دھیمی چال اور چالاکی سے 1971میں ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنا بدلہ لے چکا ہے بدلتے دور نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ علم اور عقل سے لڑی جاتی ہیں اور اج جنگ کی ہار اور جیت کا انحصار اس ملک کے نوجوانوں پر ہے کیونکہ
نوجوان کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کسی ملک کے مستقبل کا تعین اس ملک کے نوجوانوں کی عادات و اطوار کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے نوجوان جو معاشرے کا ستون ہوتے ہیں اگر غلط کاریوں کا شکار ہو جائیں تو ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے اگر کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے اسی طرح اگر ملک کو مکمل طور پر تباہ کرنا مقصود ہو تو اس ملک کے نوجوانوں کو غلط کاریوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور اس ملک کو غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کچھ ایسا ہی حال آج میرے وطن عزیز کا ہے جس میں نوجوانوں کی تفریحات کا جائزہ لیں
تو سوائے تباہی کے کچھ نظر نہیں آتا
پہلے وقتوں میں تفریحی پروگرام دیکھے جانے کا وقت مقرر تھا جو آج اتنا بڑھ چکا
ہے کہ نوجوانوں کی زندگی میں صرف تفریح ہی نظر آتی ہے قیامت کا سماں نظر آتا جب کسی نوجوان کو اس کی تفریح سے روک دیا جائے سب تفریحات میں
ایسی تفریح ہے جو بیہودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہےTIKTOK بے لگام نوجوانوں کے لیے یہ ایک ایسا راستہ ہے جو انھیں اپنے کمروں سے لے کر پارکوں تک ہر طرح کی سہولت مہیا کرتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں بیہودگی پھیلاہیں
سستی شہرت کے حصول کے لیے نوجوان خود کو بے لباس کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے کلچر کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں ہر دوسرے گھر سے نہ صرف نوجوان لڑکے بلکہ نوجوان لڑکیاں فلمی اداکاراؤں کی نقالی کرتی نظر آتی ہیں نوجوانوں کے علاؤہ اڈھیڑ عمر ،بچے اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہیں پھر بد قسمتی تو یہ ہے کہ ان کو بطورِ ہیرو ٹی وی کے چینلز پر بلا کر سراہا جاتا ہے
ایسے معاشرے میں مینار پاکستان جیسے واقعات کا ہونا معمولی بات ہے ایسے ۔شرمناک واقعات بے جا آزادی کا منہ بولتا ثبوت ھیں
معاشی ترقی کے ذرائع ڈھونڈنے والے نوجوان سے پھر ایسی ہی تفریح کی امید کی
جا سکتی ھے۔وہ خود کو اخلاق سے گرا کر یا خود کو نچا کر پیسہ کمانے کے لیے
تیار ھو جاتے ھیں۔نوجوانون کو سوشل میڈیا تو ایک راستہ مل ھی گیا ہوا ھےایسی
حرکات کے لیے
سرحدوں پر جان ہتھیلیوں پر رکھے جانباز تو آج بھی میلی آنکھ وطن کی طرف اٹھنے نہیں دیں گے لیکن کیا دفاع صرف سرحدوں تک ہی ضروری ہےبدلتے دور میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نھیں لڑی جاتیں بلکہ علم اور ہنر سے لڑی جاتی ہیں۔سرحدوں پر دفاع کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی دفاع بہت ضروری ہے۔ھمارے نوجوانوں میں خود نمائی کی ہوس اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں
بند اگر کمزور ہو تو پانی سیلاب بن کر نقصان ضرور کرتا ہےفحاشی کا پھیلتا ہوا سیلاب اس ملک کے نوجوانوں کو بہاتا لے جا رہا ہے۔معاشرے میں فحاشی جتنی خاص ہوتی جائے گی برئی اتنی عام ہوتی جائے گی
اس کا ذمہ دار کون ہے؟ والدین ، حکمران ،اساتذہ یا ہمارا میڈیا ؟۔ایسا معاشرہ جس میں میرا جسم میری مرضی جیسے گندے نعرے کے خلاف آواز بلند کرنے والی قوم کبھی بھی اپنے معاشرے کو بگڑتا نہیں دیکھ سکتی۔افسوس ہے حکمرانون پر جو جنہوں نے محض کبوتر کی ترح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ہمارے ذمہ دار
افراد کدھر ھیں؟کون ان کی لگامیں کھینچے گا؟کون ان کو راہ راست پر لائے گا؟
اگر برائی کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو پھر ملک کا مستقبل کیا
ھو گا؟والدین خود بھی ذمہ دار ہیں۔وہ اپنی اولادوں کو روکنے میں یا تو بے بس
ھیں یا پھر خود ان سب سے متاثر ہیں۔اگر اس بہتے ہوئے دریا کے آگے بند نہ
باندھا گیا تو پھر بے حیائی کے سیلاب سے ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دارہوں گے
No comments:
Post a Comment