Friday, February 24, 2023

DRUG ADDICTION





 کسی بھی بیماری کے لیے ہم ادویات کا استعمال کرتے ہیں یہ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو


کسی کی جسمانی یا نفسیاتی تبدیلے کا باعث بنتے ہیں۔دہکھنے میں ہم اکثر منشیات اور دوائی میں فرق نہیں  کر پاتے لیکن دعنعں الگ الگ اچرات رکھتے ھیں۔منشیات آپ کے جسم اور دماغ کا کنٹرول آپ سے چھین لیتے ھیں اور دوائیں آپ کا کنٹرول بحال کرتی ھیں۔آج پوری دنیا میں منشیات کا استعمال بھر پور تریقے سے مختلف صورتوں میں کیا جا رہا ہے۔ان سب صورتوں مین سب سے خطرناک صورت اس پر مکمل طور پر انحصار کرنا ہے۔طویل مدت تک منطیات کا استمعال مستقل زہنی اور جسمانی بیماری کا موجب بنتا ہے۔منشیات کی کچھ اقسام جو زہنی اور جسمانی

پریشانی کا باعث بنتی ھیں وہ ہیروین بھنگ تمباکو کوکین اور الکوحل ھیں

World drug report  کے ایک اندازے کے مطابق تقریبا دنیا کے 11  ملین لوگ منشیات کے استعمال سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ھیں۔آخر اس مہلک عادت میں لوگ مبتلا کس طرح ہو جاتے ھیں دراصل اس میں بہت سے ماحولیاتی عوامل ھیں جن میں نوجوان کا بری صحبت میں رہنا اور adventure کے نام پر نئے نئے تجربات کرنا نشے کی لت پڑنے کا آغاز ہوتا ہے۔جو بعد میں بے قابو ہو کر سنگہن بگاڑ کی سورت اختیار کر لیتا ہے اس کے علاوہ پریشان کن گھریلو پس منظر جن میں والدین کی اولاد سے لاپرواہی ہا جھگڑے شامل ہیں ایسے ماحول میں رہنے والے اپنی زندگی سے غیر مطمعن اور ناخوش ہوتے ہیں۔وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار پانے کے لیے نشے کی عادت کی طرف رجوع کرتے ھیں۔ان سب پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات اٹھاتے جاہیں جن سے نشے کے شکار افراد سحت کے حسول کے بعد معمول کی زندگی بحال کر سکیں لیکن پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں نشہ باز ان کے خاندان والے اور دوست احباب اس سلسلے میں دوسروں سے بات کرنا ممنوع سمجھتے ہیں۔کسی کو برادری سے نکالے جانے کا خوف ہوتا ھے اور کسی کو بدنامی کا۔اسی لیے ان کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ھے اور ایسی سارت میں نشے کے عادی افراد کا بر وقت علاج نہیں ہو پاتا اور وہ مر جاتے ھیں۔ ان کا سحت یابی کے لیےREHABILIATION CENTRES بیترین جگہیں ہیں ان مراکز میں ان لوگوں کو مکمل طبی مدد اور رہنمائی فراہم کی جاتی ھے۔لہٰزا نشے بازوں کو ان مراکز میں لے جانا چاہیے جہاں ان کے لئے موزعں علاج دستیاب ہو اس کے لیے ان کی بر وقت تشخیص اور ان مراکز میں کام کرنے والون کے ساتھ عزیزواقارب اور دوست احباب کا مکمل تعاون ضرعری ہے۔ نشے کی عادت کی روک تھام کے لیے مشاورت یا COUNSELLING بہت مدد کرتی ہے یہ مشاورت جتنی جلدی کر لی جائے اتنا ہی نشے کے شکار شخص کے لیے بہتر ھوتا ھے۔ایک مرتبہ عادت ختم ہونے کے بعد اس عادت کے دوبارہ ہو جانا بھی ممکن ہے اس لیے ضروری ھے کہ مشاورت کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں اہل خانہ اور دوستوں کونشے کے شکار شخص پر گہری نظر رکھنی چاہئے نشے کی عادت واقعی میں کسی معاشرے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔صرف پاکستان میں تقریبا 50 لاکھ افراد نشے کے عادی ھیں۔نشے کے عادی افراد کا تعلق چاہے دنیا کے کسی بھی خطے سے ہے اسے سماجی معاشی اور صحت کے مسائل جھیلنے پڑتے ہیں پوری دنیا کی حکومتیں معاشرے سے اس کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر اس کے مکمل صفایا کے لیے ماید کوششوں کی ضرورت ہے۔یہ صرف اس صورت میں ھی ممکن یو سکتا ہے جب لوگ حد درجے تک ان خطرات سے آگاہ ہو جائیں جو منشیات لاحق کرتی ہے اور وہ صحت مند اور بامقصد زندگی گزارنے کا پختہ نہ کر لیں۔



Tuesday, January 31, 2023

الیکشن






سیاست میں گالم گلوچ،کھینچا تانی،ہارس ٹرہڈنگ دھرنے،دھڑےبندیاں بڑی عام سی بات ہے۔افسوس سب کھیل تماشے میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کا نوالہ بنتی ہی۔غریب عوام کی بلی تو چڑھتی ہی آئی ہے اب کوئی حلقہ بھی محفوظ نہیں ۔کبھی ہم کسی صحافی کو گولی لگتے دیکھتے ھیں اور کہیں کوئی کچلا جاتا ھے۔کبھی کسی سیاستدان کو گولی لگتی ہے اور کبھی کوئی راہ چلتے جلسوں میں مارا جاتا ہے۔کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔عجب بے حسی کا دور ہے۔سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔نفسا نفسی کے اس دور میں قیامت کا سماں نظر آتا ہے۔امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہےایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ ہر شخص ہر وقت کسی نہ کسی پریشانی کا شکار ہے۔لگتا ہے ہر کوئی ڈپریشن کا مریض بن چکا ہے اس ساری صورتحال کا زمہ داربھاری دماغوں کے ہلکی سوچ رکھنے والے سیاستدان  ہیں

غریب ملک میں جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اور ہر پڑھے لکھے نوجوان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہواور حاکم اقتدار کے حصول کے لیےتمام اداروں کے ہاتھوں میں عوام اور قوانین کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہوں جہاں کوہی اپنی گرفتاری کے انتظار ہے کہ کب گرفتار ہو اور عوام میں ہیرو بنے تو کہیں کوہی کسی کی وڈیو کے وائرل ہونے کے انتظار میں ہے جو کسی کی بدنامی کا باعث بنے،اسمبلیوں میں کرسی کرسی کا کھیل کھیلا جا رھا ہو اور کبھی کرسی ان سب کا کھیل تماشہ بناتی ہو وہاں کے نوجواں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔عوام ہر بار ایک نئے لیڈر کے انتظار میں رہتے ہیں جو ان کے حالات کو بہتر بنا سکےاور یہی مفادپرست اور لالچی لوگ ایسے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی حلقوں میں پہنچ جاتے ہیں اور لوگوں کے ضمیر خریدنے  میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔آج پھر نئے الیکشن کی آوازیں   بلند ہو رہی ہین۔ جدا بہتر جانتا ہے کہ اب ہمارا نیا آنے والا حکمران کون ہو گا ڈالر کی اونچی  اڑان نے عوام کو مفلوج کر دیا ہےا


Thursday, August 19, 2021

یوم دفاع اور2021

 



آج سے کچھ دن بعد ہمم بڑے جوش وخروش سے اپنا یوم دفاع منانے والے ہیں۔اپنی کامیابی کا جشن منانا ہمارا حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دشمن اپنی دھیمی چال اور چالاکی سے 1971میں ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنا بدلہ لے چکا ہے بدلتے دور نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ علم  اور عقل  سے لڑی جاتی ہیں  اور اج جنگ کی ہار اور جیت  کا انحصار اس ملک کے نوجوانوں پر ہے کیونکہ
نوجوان کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ کسی ملک کے مستقبل کا تعین اس ملک کے نوجوانوں کی عادات و اطوار کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے نوجوان جو معاشرے کا ستون ہوتے ہیں اگر غلط کاریوں کا شکار ہو جائیں تو ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے اگر کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے اسی طرح اگر ملک کو مکمل طور پر تباہ کرنا مقصود ہو تو اس ملک کے نوجوانوں کو غلط کاریوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور اس ملک کو غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کچھ ایسا ہی حال آج میرے وطن عزیز کا ہے جس میں نوجوانوں کی تفریحات کا جائزہ لیں
تو سوائے تباہی کے کچھ نظر نہیں آتا
پہلے وقتوں میں تفریحی پروگرام دیکھے جانے کا وقت مقرر تھا جو آج اتنا بڑھ چکا








ہے کہ نوجوانوں کی زندگی میں صرف تفریح ہی نظر آتی ہے قیامت کا سماں نظر آتا جب کسی نوجوان کو اس کی تفریح سے روک دیا جائے سب تفریحات میں
ایسی تفریح ہے جو بیہودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہےTIKTOK بے لگام نوجوانوں کے لیے یہ ایک ایسا راستہ ہے جو انھیں اپنے کمروں سے لے کر پارکوں تک ہر طرح کی سہولت مہیا کرتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں بیہودگی پھیلاہیں
سستی شہرت کے حصول کے لیے نوجوان خود کو بے لباس کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے کلچر کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں ہر دوسرے گھر سے نہ صرف نوجوان لڑکے بلکہ نوجوان لڑکیاں فلمی اداکاراؤں کی نقالی کرتی نظر آتی ہیں نوجوانوں کے علاؤہ اڈھیڑ عمر ،بچے اور بوڑھے بھی اس کا شکار ہیں پھر بد قسمتی تو یہ ہے کہ ان کو بطورِ ہیرو ٹی وی کے چینلز پر بلا کر سراہا جاتا ہے

ایسے معاشرے میں مینار پاکستان جیسے واقعات کا ہونا معمولی بات ہے ایسے ۔شرمناک واقعات بے جا آزادی کا منہ بولتا ثبوت ھیں
معاشی ترقی کے ذرائع ڈھونڈنے والے نوجوان سے پھر ایسی ہی تفریح کی امید کی
جا سکتی ھے۔وہ خود کو اخلاق سے گرا کر یا خود کو نچا کر پیسہ کمانے کے لیے
تیار ھو جاتے ھیں۔نوجوانون کو سوشل میڈیا تو ایک راستہ مل ھی گیا ہوا ھےایسی
حرکات کے لیے

سرحدوں پر جان ہتھیلیوں پر رکھے جانباز تو آج بھی میلی آنکھ وطن کی طرف اٹھنے نہیں دیں گے لیکن کیا دفاع صرف سرحدوں تک ہی ضروری ہےبدلتے دور میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آج جنگیں ہتھیاروں سے نھیں لڑی جاتیں بلکہ علم اور ہنر سے لڑی جاتی ہیں۔سرحدوں پر دفاع کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی دفاع بہت ضروری ہے۔ھمارے نوجوانوں میں خود نمائی کی ہوس اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں

بند اگر کمزور ہو تو پانی سیلاب بن کر نقصان ضرور کرتا ہےفحاشی کا پھیلتا ہوا سیلاب اس ملک کے نوجوانوں کو بہاتا لے جا رہا ہے۔معاشرے میں فحاشی جتنی خاص ہوتی جائے گی برئی اتنی عام ہوتی جائے گی
اس کا ذمہ دار کون ہے؟ والدین ، حکمران ،اساتذہ یا ہمارا میڈیا ؟۔ایسا معاشرہ جس میں میرا جسم میری مرضی جیسے گندے نعرے کے خلاف آواز بلند کرنے والی قوم کبھی بھی اپنے معاشرے کو بگڑتا نہیں دیکھ سکتی۔افسوس ہے حکمرانون پر جو جنہوں نے محض کبوتر کی ترح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ہمارے ذمہ دار
افراد کدھر ھیں؟کون ان کی لگامیں کھینچے گا؟کون ان کو راہ راست پر لائے گا؟
اگر برائی کی اسی طرح حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو پھر ملک کا مستقبل کیا
ھو گا؟والدین خود بھی ذمہ دار ہیں۔وہ اپنی اولادوں کو روکنے میں یا تو بے بس
ھیں یا پھر خود ان سب سے متاثر ہیں۔اگر اس بہتے ہوئے دریا کے آگے بند نہ
باندھا گیا تو پھر بے حیائی کے سیلاب سے ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دارہوں گے

اللہ میرے ملک کو اس تباہی سے بچائے آمین!






Friday, August 13, 2021

14 AUGUST



 

کھلے آسمان تلے پر سکون فضا میں آزادانہ نقل و حرکت ایک آزاد ملک کے باشندے کی ہی خوش قسمتی ہو سکتی ھے۔ہمارا شمار بھی انہی خوش قسمت  لوگوں میں ھوتا ھے جو اپنا یوم آزادی بھرپور طریقے سے منا سکتے ہیں۔ہر سال کی طرح اس سال بھی جگہ جگہ پرچم لہرائے جایئں گے۔پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کئے جائیں گے۔اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں دی ھیں ان کا حساب چکانا ناممکن ہے۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کے قیام کی خوشی میں لاکھوں  مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔دنیا میں اتنی بڑی ہجرت کا واقعہ کہیں رونما نھیں ہوا تھا۔دشمن نے اس نومولود ملک کو اپاہج کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا تا کہ دوبارہ انڈیا کا حصہ بنایا جا سکے۔قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے باعث کے باعث دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن ایسے بیج بو گیا جو آج تک موجود ھیں۔جن میں سب سے بڑا مسلہ کشمیر کا مسلہ ھے۔جو برطانوی قانون دان سر ریڈ کلف نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ میں آ کر علاقوں کی  غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے آج تک حل نہیں ہو سکا 

            دشمن نے چالیں چلنےاورھماری آزادی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن اللہ کے کرم اور ہمارے جانباز مجاہدوں کی بدولت ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔دشمن جب بھی کامیاب ہوا اس میں اپنوں کی غداری،ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس اہم پہلو رہے ہیں۔بد قسمتی سے با صلاحیت اور مخلص قیادت کا فقدان رہا ہے۔ اور اگر کوی ایسا شخص قیادت سنبھال لے تو اس کی آ نکھوں پر لالچ اور ہوس کی پٹی باندھ دی جاتی ہے وہ لالچ میں آ کر ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے یا دوسری صورت میں اس کو راستے سے ہی ہٹا دیا جاتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ یہ حکمران ملکی آزادی عظمت و حرمت کو گروی رکھ کر دنیا کے آ گے ہاتھ پھیلاتے اور اقتدار کے لیے لڑتے نظر آ تے ہیں



مخلص قیادت  قوموں کو بنانے اور سنوارنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس کی زندہ مثال چین میں ماؤزے تنگ کی ہے۔بد قسمتی سے پاکستان اچھی قیادت سے اکثر محروم ہی رہا ہے۔کافی عرصہ آمرانہ دور کی وجہ سے جمہوریت کو فروغ ھی نہیں مل سکا اور جو دور جمہوریت کا آیا وہ مطلبی لوگوں کی نظر ھو گیا۔آج تک بھی دھاندلی چوری کے الزامات کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ہر صاحب حیثیت حزب مخالف کو چور اور نا اہل کہتا ھے۔انتخابات کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے اثاثہ جات کی ترقی کے لیے مکمل تگ و دو کی جاتی ہے۔عوام کو تصویر کا ایک رخ دکھا کر ان کی معصومیت کا اس طرح مذاق اڑایا جاتا ھےکہ وہ اپنی ساده لوحی کی وجہ سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھ ھی نہیں پاتے اور اپنے ملک پر مر مٹنے والے غیور عوام اپنی ہی حق رائے دہی سے اپنے ملک کے دشمنوں کو چن لیتے ہیں۔

ملک کی آزادی بہت بڑی نعمت ھے آزاد ریاستیں اپنے معاشی سیاسی،معاشرتی،اقتصادی نیز ہر پہلو میں آزاد ہوتی ھیں۔آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں  کی پہچان ہے لیکن اس جشن میں اپنے پرچم کی توہین کرنا دنیا کو منفی پیغام دینے کے مترادف ھے۔۔ہم اکثر جشن منانے کے جوش میں اپنے پرچم اپنے
پیروں تلے روند دیتے ہیں۔

ہم اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ یہ ھماری آزادی کی پہچان نہیں بلکہ ہماری پہچان ہی اس سے ہے۔ خدا ہمارےملک کو معاشی ،سیاسی،اقتصادی، معاشرتی خواہ ہر اعتبار سے ترقی عطا فرمائے آمین!






Thursday, April 22, 2021



استاد کسی بھی معاشرے کا وہ کردار ہیں جن کے کندھوں پر اچھے یا برے معاشرے کی تشکیل کا بوجھ ہوتا ہے۔ان معمار قوم کے ہاتھ باندھ دینے کا مطلب ہے ایسی نسل کو پروان چڑھانا جو منہ زور ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی پستیوں میں گری ہوئی ہو۔اچھے استاد کا ملنا بہت خوش نصیبی کی بات ہے۔پہلے والدین اپنے بچوں کی شخصیت سنوارنے کے لئے اساتذہ کے حوالے کرتے تھے لیکن آج اساتذہ کو والدین کے تابع رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے

"مار نہیں پیار"کا نعرہ ایک حدد تک تو اثر رکھتا ہے لیکن دراصل اس کے اثرات بہت بھیانک ہیں

یہ نعرہ دراصل چند اساتذہ کے بےجا تشدد کو روکنے کے لیے لگایا گیا۔جن کی مار کی وجہ سے بچے یا تو تعلیم کے نام سے بھی دوڑ جاتے ہیں یا وہ ایسے تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کے لیے کسی گہری چوٹ کا باعث بنتا تھا۔ لیکن اس کی آڑ میں بارسوخ ذرائع رکھنے والے لوگوں نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور اساتذہ کے احترام کو پامال کرنا شروع کر دیا 

آج اساتذہ بااثر افراد کے تابع رہنے اور ان کے آگے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہیں المیہ تو یہ ہے کہ استاد سے چھوٹی سی غلطی سرزد ہونے کی صورت میں اس کی پیشی انہی والدین کے سامنے ہوتی ہے

اس نعرے کا ماخذ دراصل پرائیویٹ سکولوں کے قوانین و ضوابط ہیں جو فیسوں سے اپنی جیبوں کو بھرنے کی خاطر کسی بچے کا سکول سے اخراج برداشت نہیں کر پاتے انہیں ہر حالت میں بچے کی تعداد کو پورا کرنا ہے اس تعداد کو پورا کرنے کی خاطر انہیں چند اچھے اساتذہ سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تو کوئی فرق نہیں پڑتا 

پی ٹی ایم کے نام پر والدین کی آؤ بھگت اور خوشامد سے والدین کو خوش کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ رہیس زادے اور رہیس زادیوں کو راہ راست پر لانے اور ان کی اصلاح کرنے کے لیے اساتذہ کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ توجہ سے پڑھائیں اور ین کی اصلاح کریں۔ٍمار نہیں پیار کی اصل جڑ یہیں سے پروان چڑھی ہے۔جو بعد میں ہر سکول تک پہنچ گئی ہے

اساتذہ کو اس بات کا خود دھیان رکھنا چاہئیے کہ والدین اپنے جگرگوشوں کو برے اعتماد سے استاد جیسی ہستی کے حوالے کرتے ہیں۔ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی شخصیت سازی میں حتی الامکان کوشش پیار سے کریں لیکن بگاڑ نظر آنے پر اپنے مار کے اختیارات کا استعمال کریں۔جو سزا کا حق دار ہے اسے سزا ملنی چاہیےلیکن سزا اذیئت نہیں بننی چاہیے۔

Tuesday, April 20, 2021

میڈیا کی بےلگام آزادی


 ایک محب وطن شہری ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان امور کی نشاندہی کریں جو میرے وطن کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔میڈیا کسی بھی معاشرے میں اچھائی یا برائی پھیلانے میں بڑا اثر رکھتا ہے۔ہمارے ٹی وٰی چینلز پر دکھائی جانے والی نشریات میں جو پروگرام دکھائے جا راتہے ہیں وہ کسی طرح بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔چند روپوں اور پروگراموں کی ریٹنگ کی خاطر وطن کے بیٹے اور بیٹیوں کو نچایا جا رھا ھےاور جو دنیا کے سامنے پاکستان کا غلط نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ھمارے چینلز کی نشریات میں ناچتے نوجوان ہمارے ملک کے سارے طبقوں کی نمائندگی نہیں کرتےلیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پروگرام ہر طبقے پر اثرانداز  ہو رہے ہیں۔کہیں اسٹیج پر دلہن بنی جوان لڑکیاں  مقابلہ کرتی نظر آتی ھیں تو کسی جگہ  جلوے بکھیرتی ادائیں دکھاتی ماڈلز سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ھیں۔کسی جگہ گانوں اور ڈانس کا مقابلہ ھے تو کسی جگہ ٹک ٹاکر ھیرو بنے ہوے ہیں ۔گھروں میں بیٹھے نوجوان ان کو ہی اپنا آئیڈیل بنا کر وہی سب سیکھیں گے جو دکھایا جا رہا ھے۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں چینلز کو یہ سب زیب نہیں دیتا کہ وو ایسی کسی تہزیب کا پرچار کرے۔آزادی کے نام پر حاصل کئے گئے اس ملک میں آزادی تو نظر آتی ھے اسلام نہیں۔ خدا ھمیں نیکی کی ہدائیت دے آمین

As a patriotic citizen, it is our duty to take stock of the situation in the country and point out the issues that are licking my homeland like termites. The media has a great influence in spreading good or evil in any society. The programs being shown on TV channels do not reflect our society in any way. For the sake of a few rupees and ratings of programs, the sons and daughters of the homeland are being danced and what is Pakistan's in front of the world. The wrong map is being drawn. The young people dancing in the broadcasts of our channels do not represent all sections of our country but the bitter reality is that such programs are affecting every section. So, in some places, models try to take the lead. In some places, there is a competition of songs and dances, and in some places, they have become tick-tock heroes. It is being shown. In a country established in the name of Islam, it does not beautify the channels that Wu He should propagate such a civilization. In this country which was achieved in the name of freedom, freedom is seen and not Islam. May God guide us to goodness. Ameen

DRUG ADDICTION

  کسی بھی بیماری کے لیے ہم ادویات کا استعمال کرتے ہیں یہ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو کسی کی جسمانی یا نفسیاتی تبدیلے کا باعث بنتے ہیں۔دہکھنے می...